کائنات کا وجود :- (حصہ اول )
ڈاکٹرمسعوداقبال اعوان :-
اس دنیا میں جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہے اور جو کچھ بھی نظر نہیں آرہا جو کچھ ہمیں محسوس ہو رہا ہے اور جو کچھ ہمیں محسوس نہیں ہو رہا ہے سب کائنات کے زمرے میں آتا ہے .کائنات کی تعریف اگر سادہ الفاظ میں بیان کریں ۔ تو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر دو چیزیں مادہ اور توانائی کائنات کی تعریف میں آتے ہیں۔ تمام ماده اور توانائی مل کر مشترکہ طور پر کائنات کو بناتے ہیں ۔کائنات سے مراد اجرام فلکی اور ان کے مابین موجود فضائیں اور ان کے مربوط نظام کو کہا جا سکتا ہے. جو قدرت کی طرف سے بنائی گئی ہیں. مگردر حقیقت کائنات میں وہ سب کچھ بھی شامل ہے جو موجود ہے. بعض اوقات اس کا استعمال انسانی حیات اور اس سے متعلقہ چیزوں کے لیے بھی کیا جاتا ہے. اور یہاں بھی اس سے مراد ہر موجود شے کی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ انسانی تجربات اور خود انسان بھی دائرے میں آ جاتے ہیں.
کائنات کی تعریف یوں بھی کی جاتی ہے کہ کائنات ذ را ت اور توانائی کی تمام موجودہ اقسام کا مجموعہ ہے. جس میں تمام واقعات رونما ہوتے ہیں کائنات کے قابل مشاہدہ حصوں کے مطالعے سے حاصل ہوتے ہیں . طبیعیات دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مادہ اور توانائی اور اس میں رونما واقعات کے کل مجموعے کو ایک نظام کے تحت تصور کرتے ہیں.
آغاز کائنات :-
آغاز کائنات کے بارے میں دنیا میں ہر زمانے میں مختلف اور متضاد نظریے ہیں۔ اس دنیا میں لا تعداد مذاہب کے نظریات بھی شامل ہیں اور فلسفیوں کے نظریات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سائنسی نظریات بھی شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے یہ سب کائنات کی تخلیق پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی یہ کائنات عدم سے وجود میں آئی اور پہلے کچھ نہیں تھا۔ خدا نے چاہا ، تو اس نے کائنات کی تخلیق کیا ۔ اس نے کہا ہوجا اور کائنات وجود میں آگئی۔ زمین اور آسمان سات دن میں تخلیق ہوئے۔ ایسے بہت سے نظریات ہیں جن کا مطلب یہ ہے کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ اس میں یہ بحثیں بھی شامل ہیں کہ کائنات میں خدا موجود ہے، وہ روح کائنات ہے یا اس سے ماورا۔ اسلامی تصورات کے مطابق خدا کائنات کو تخلیق کیا ہے۔
بعض دیو مالاؤں میں زمین کو ازل سے تسلیم کیا گیا ہے، گو زندگی کی تخلیق کا تصور بھی اس کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ سائنس ابھی تک کائنات کے کسی بھی حتمی نظریے کا مادی ثبوت پیش نہیں کر سکی ہے۔ ابتدا سائنس کے لیے ابھی تک حتمی طور پر یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ ماضی کی جستجو جہاں تک بھی انسانی تحقیق ممکنہ طور پر پہنچی ہے کہ کائنات موجود ہے۔
اس کے پیچھے ایک لامتناہی اور مستقبل میں کتنا ہی آگے چلے جائیں، جہاں رکیں گے وہاں سے آگے لامتناہی مستقبل ہے۔ وقت کا کوئی آغاز ہے اور کوئی انجام نہیں۔ مادے کی ہر صورت اور حرکت کی ہر شکل اور ہر معروضی وجود کائنات میں شامل ہے۔ کائنات سے باہر موجود ہونے کا کوئی طریقہ، کوئی رستہ نہیں ہے۔ یہ ناممکن ہے ۔
کائنات سے باہر کچھ نہیں، کائنات ہر شے پر حاوی ہے، کائنات ہی کل ہے۔ بعض مغربی سائنسدانوں نے یہ تصور پیش کیا کہ کائنات سے باہر ایک ضد کائنات ہے۔ جو ضد مادہ پر مشتمل ہے۔ دراصل جس چیز کو سائنس دان ضد مادہ کہہ رہے ہیں وہ مادہ ہی کی مخصوص شکل ہے۔ اس کی اندرونی ساخت ایسی ہے جو اس مادے سے مختلف ہے، جس کو ہماری سائنس کچھ سمجھ سکی ہے اور جس کی مزید پرکھ میں سائنس مصروف کار ہے۔ یقیناً کائنات میں ایسی مادی صورتیں اپنا معروضی وجود رکھتی ہیں۔ جو مختلف ہیں۔ یہ چیز خود اس بات کا ثبوت ہے کہ مادہ لامتناہی طور پر قابل تقسیم ہے۔ اس کی تقسیم در تقسیم کا عمل کہیں نہیں رک سکتا ہے۔ اس کا کوئی انجام، کوئی حد، کوئی آخری کنارہ نہیں۔ اگر کوئی ایسے اجزام فلکی موجود ہیں جو ضد مادے پر مشتمل ہیں تو یہ سب اجر ام فلکی بھی کائنات کا حصہ ہی ہیں۔ یہ کائنات سے باہر کسی نام نہاد ضد کائنات کا حصہ نہیں۔
کائنات لامتناہی زمان اور لامتناہی مکان کی وحدت پر مشتمل ہے، کائنات کے بارے میں انسانی علم ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا اور نہ کبھی اپنے عروج پر پہنچے گا۔ انسان کا کائناتی علم جتنا بھی بڑھتا جائے گا۔ اتناہی نہ ختم ہونے والا رہے گا۔
فنا کا فلسفه :-
مغرب کی نام نہاد فلکیات دان کا نذر یہ مابعد الطبیعیاتی فلکیات یہ باور کرتے ہیں کہ کائنات کا فوری طور پر بھی کوئی نقطہ آغاز ہے ۔اور ایک سلسلہ ارتقائی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک نظریہ عظیم دھماکا ( بگ بینگ ) کا ہے ۔ یعنی کائنات ایک ’ ماقبل کائنات آتشیں گولے کے ایک عظیم دھماکے سے پھٹ جانے سے وجود میں آئی۔ دھماکے سے قدیم مادہ ہر سمت بکھر گیا، وہی کائنات ہے۔ چونکہ دھماکا سے مادہ بکھر گیا تو وہ یقیناً مسلسل پھیل رہا ہے۔ اگر کائنات پھیل رہی ہے تو یقینا یہ محدود کناروں میں بند کائنات ہے جس کے کنارے پھیل رہے ہیں۔ اگر یہ آغاز رکھتی ہے تو اس کا انجام، یوم فنا بھی یقینا ضرور ہوگا۔ مغربی سائنسدانوں نے اس یوم فنا کی بھی پیش گوئی کی ہے۔ حراری حرکیات کے دوسرے قانون کو بنیاد بنا کر وہ مرگ حرارت کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ چونکہ حرارت گرم سے ٹھنڈے اجسام کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ یوں پوری کائنات جو اپنی سرحدوں میں بند ہے ایک روز حراری حرکیات کے توازن کو پالے گی اور کل کائنات ایک جامد تالاب میں بدل جائے گی، جس میں تبدیلی کے سب امکانات ختم ہوجائیں گے۔ ایسا ہی دن کائنات کا آخری دن فنا کا دن ہوگا۔
No comments:
Post a Comment